حوزہ نیوز ایجنسی | جسٹس مولانا سید کرامت حسین کنتوری 1/جولائی 1852 عیسوی میں سرزمین جھانسی پر پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ موصوف کے والد مولانا سراج حسین اور دادا مفتی سید محمد قلی کا شمار اپنے وقت کے مشہورو معروف علماء میں ہوتا تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب28واسطوں سے حضرت امام موسیٰ کاظمؑ تک پہنچتا ہے۔
مولانا کرامت حسین بچپن سے ہی بہت ذہین تھےآپ نےعربی ، فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی۔ 14 سال کی عمر میں تفسیر صافی، مقاماتِ حریری، اقلیدس عربی، جبرومقابلہ ارود وغیرہ زبانی حفظ کر لیں تھیں۔آپ کے والد ہر جمعہ کو انگریزی زبان کی کتاب اصولِ طبیعیات محسبی پڑھاتے تھے۔
جسٹس مولانا کرامت حسین سن1865 عیسوی میں اپنے چچا سید اعجاز حسین اورعلامہ سید حامد حسین موسوی کے ہمراہ حج و زیارات کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر کے دوران آپ کوحصول علم کا مزیدشوق ہوگیا۔ حج سے واپسی پر لکھنؤمیں ممتاز العلماء سید محمد تقی، مولانا سید احمد علی، مفتی میر عباس اور علامہ سید حامد حسین صاحب عبقات الانوار کے سامنے زانوئے ادب طے کئے۔ آپ ہرروز 17 سے 18 گھنٹے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔
مولانا حصول علم کو بہت پسند فرماتے تھے، اس راہ میں سختیاں برداشت کیں جیسے مہینوں دال روٹی پر گزارا کرنا، سال بھر ایک چھوٹے سے صندوق پر سونا، صندوق بھی ایسا جس پر پاؤں تک نہ پھیلا سکتے تھے۔ جب نیند آتی تو کتابوں کو صندوق میں بند کرکے اسی پر سو تے ، کروٹ لینے کی ضرورت پڑتی، تو بیٹھ کر دوسری طرف لیٹ جاتے تھے۔
موصوف نے علم حدیث، تفسیر، فقہ، اصول، معانی و بیان اور عربی ادب میں مہارت حاصل کی۔ آپ کو دیوانِ حماسہ اور نہج البلاغہ کے بہت سے حصے زبانی یاد تھے۔ عربی، فارسی کے علاوہ آپ کو انگریزی اور جرمنی زبان پر بھی مہارت تھی۔
موصوف میں لوگوں کی خدمت اور قانونی امور کے مسائل حل کرنے کا جذبہ بہت تھا چنانچہ سن 1890 عیسوی میں علم قانون اور وکالت کی تعلیم حاصل کرنےکی غرض سے لندن کا سفر کیا اور بیرسٹر کی سند حاصل کرکے ہندوستان واپس آئے۔ یہاں آکر علی گڑھ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر مقرر ہوئے اور علم قانون پڑھانے میں مشغول ہو گئے ۔ اس کے علاوہ محمڈن کالج، "میور سینٹرل کالج" میں بھی وظیفہ تدریس کو انجام دیتے رہے۔ ایک مرتبہ کالج کے پرنسپل نے آپ سے کہا : جب بھی آپ باہر جائیں تو پہلےاجازت لیں۔ اس شرط کو آپ نے اپنی آزادی کے خلاف سمجھا اور کالج سے استعفیٰ دے دیا۔
جس وقت آپ لندن میں تھے تو وہاں خواتین کی تعلیم سےمتاثر ہوکر اپنے وطن ہندوستان کی خواتین کی تعلیم کے بارے میں غور وفکر کرنے لگے چنانچہ لندن سے واپسی کے بعد الٰہ آباد میں بیرسٹری شروع کرنےکے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کے سلسلے میں غور و فکر کرنے لگے اور اسکو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی،مولانانے تعلیم نسواں کی اہمیت پر رسالہ لکھا اور اسکو چھپواکر شایع کیا لیکن کوئی عملی صورت نہیں پیدا ہوئی۔ سن 1891 عیسوی میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس الہ آباد میں منعقد ہوئی جسمیں مولانا کرامت حسین نے حاضرین سے کہا کہ آپ لوگ مسلمانوں کی تعلیم سے دلچسپی رکھتے ہیں لیکن خواتین کی تعلیم سے کیوں دلچسی نہیں رکھتے جس کو اکثر حضرات نے بڑی لاپروائی سے سنا اور کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
سن 1892 عیسوی میں مولانا کرامت حسین علی گڑھ میں قانون کے پروفیسر تھے اسوقت وہاں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس ہوا سر سید احمد خان نے جسٹس مولاناکرامت حسین سے کہا کہ کہ تم کیوں کانفرنس کے منبر نہیں بن جاتے جواب دیا کہ اس شرط پر منبر ہو سکتا ہوں کہ تعلیم نسواں کی تحریک کی اجازت ملے سر سید نے فرمایا آپ تحریک شروع کریں۔ موصوف نے کانفرنس میں اپنی بات رکھی بعض لوگوں نے تائید کی بعض نے مخالفت کی لیکن اتفاق سے رزولیوشن پاس ہو گیا۔
راجہ جے کشن جو سرسید کے مہمان تھے اجلاس کے بعد انہوں نے جسٹس کرامت حسین کو بلایا اور پوچھا کہ جو رزولیوشن آپ نے پاس کرا لیا وہ صرف کاغذی ہے یا تم کچھ کرنا چاہتے ہو آپ نے جواب دیا کہ میں گمنام اور بے مایہ ہوں لیکن ارادہ یہ ہے کہ جتنا وقت کسب معاش سے بچے وہ سب تعلیم نسواں پر صرف کروں ، کالج کھولنے کے سلسلے میں پہلا جلسہ ہوا جسمیں مشورہ کیا گیا کہ کالج الٰہ آباد میں کھلے یا لکھنؤ میں اور تمام اختلافات کے با وجود یہ طے پایا کہ لڑکیوں کا کالج لکھنؤ میں کھلے لہذا مولانا کرامت حسین نے لکھنؤ میں کالج کی بنیاد رکھی جسکو کرامت حسین مسلم گرلز اسکول کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
اس کالج کو قائم کرنے میں آپ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ا اکثر لوگوں نے کہا کوشش کرنا عبث ہے اور کامیابی نہیں ملے گی مولانا کرامت کے ایک دوست نے ان سے کہا اس نازیبا حرکت سے باز آ جاؤ خدا کے یہاں تمہار امنھ کالا ہو گا لیکن مولانا اپنے ارادہ میں بہت مستحکم تھے ، جسٹس مولانا کرامت موسوی نے صرف اپنے وقت اور ذات ہی کو تعلیم نسواں کے واسطے وقف نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کی ساری کمائی اس کالج پر خرچ کر دی جسکی وجہ سے انہیں عمر کاآخری حصہ سختی میں گذارناپڑا۔ مگر یہ آپ کی کوشش اور خلوص کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی "کرامت حسین کالج " لڑکیوں کو دولت علم سے سرفراز کر رہا ہے۔
آپ کو درس وتدریس سے بہت لگاؤ تھا بہت سے شاگردوں کو کتاب دیوانِ حماسہ، دیوانِ متنبی، تفسیر مجمع البیان، نہج البلاغہ، قوانین الاصول جیسے مضامین کی تعلیم دی۔
مولانا کرامت حسین نے تمام تر مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور بہت سے آثار اپنے بعد والی نسل کے لئے چھوڑے جن میں: آپ کی پہلی تصنیف "نجاستِ طعام اہلِ کتاب" تھی، جسے علامہ سید احمد علی نے دیکھ کر بہت تعریف کی اور کہا : میں آپ کے لیے "اجازہ اجتہاد" تحریر کر دیتا ہوں، مولانا سید کرامت حسین موسوی نے اجازہ لینےسے انکار کر دیا۔ آپ کی دیگر تصانیف میں "رسالہ تعلیمِ نسواں"، "رائٹ اینڈ ڈیوٹی" (انگریزی)، "سائنس آف لاء"، "فقہ اللّسان"، اور "رسالہ فی امور¬العامہ"¬وغیرہ¬ شامل ہیں۔
آپ معلم، مصنف اور جسٹس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مقرر بھی تھے موصوف کی تقریر سادہ، مختصر اور مؤثر ہوتی تھی، جسے سامعین آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔
آپ نہایت ذہین، سادہ مزاج، سخی، صاف گو، وعدے کے پابند، قناعت پسند، مہمان نواز، خوددار، صابر اور خوش اخلاق انسان تھے۔ امیر و غریب سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتے۔ جو شاگرد آپ کے پاس پڑھنے آتے، ان کے احترام میں بھی کھڑے ہو جاتے۔
آخر کار یہ علم و ادب کا مہتاب 19 /اپریل 1917عیسوی کو لکھنؤ میں غروب ہو گیا۔ انتقال کی خبر سے تمام علمی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ شاگردوں کو یقین نہیں آ رہا تھا ، ان کا مہربان استاددنیا میں نہیں رہا۔
نماز جنازہ علامہ ناصر حسین کی اقتدا میں ادا کی گئی مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ کربلا تالکٹورہ لکھنؤ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ پورے ملک میں تعزیتی جلسے منعقد ہوئے۔ الہ آباد ہائی کورٹ اور کرامت حسین مسلم گرلز اسکول میں بھی آپ کی رحلت پر تعزیتی جلسے میں آپ کی خدمات کو سراہا گیا۔ اخبارات نے آپ کے انتقال پر غم کا اظہار کیا، نظمیں اور تعزیتی مضامین لکھے گئے۔
یوں یہ عظیم عالمِ دین، معلم، وکیل،جسٹس، خطیب اور مصلحِ قوم ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے، مگر ان کا لگایا ہوا تعلیمی پودا "کرامت حسین گرلس کالج "آج بھی سرسبز ہے۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج11، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2024ء۔









آپ کا تبصرہ